باسمہ تعالی
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
اب تڑپتا نہیں پلکوں پہ ستارہ کوئی
دل کے رگ رگ سے لہو کھینچ لیا ہے میں نے
اسلام کی پہلی وحی جو غار حرا میں نازل ہوئی وہ ’’إقرأ ‘‘سے شروع ہوتی ہے جس سے بنی نوع انسان کو علم کی معنویت وافادیت سے روشناس کرایا گیا ہے تاکہ علم کی روشنی سے فکر و شعور اور قلب ونظر کو تابندہ کیا جا سکے۔ ادیان عالم کے تقابلی مطالعہ سے یہ امر ہر ذی شعور کے لیے بخوبی واضح ہو چکا ہے کہ تعلیم وتعلم کی ضرورت کی جانب مذہب اسلام نے جو رہنمائی فرمائی ہے وہ کسی بھی مذہب میں نہیں پائی جاتی۔ عالمگیریت کے اس دور میں تحقیقات واکتشافات نے پوری دنیا کو سمیٹ کر ایک گاؤں کی شکل میں کر دیا ہے۔ علمی ارتقا کی راہیں وسیع تر ہوتی جا رہی ہیں۔ نیلگوں آسمان کے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے، مریخ پر کمندیں ڈالی جا رہی ہیں۔ لیکن اسلامی درس گاہیں اپنی ویرانی پر ماتم کناں نظر آرہی ہیں۔ قوم مسلم کے جمود وتعطل کا شکوہ کر رہی ہیں۔ چوں کہ قوم کے بڑے سرمایہ دار ادارے کی سرپرستی سے پہلو تہی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ دور حکومت میں اسلامی دانش گاہیں حکومتی سطح پر ملنے والی امداد سے قوم کے نونہالوں کے مستقبل کو تابناک بنانے میں مصروف تھیں ، اور ان حکومتوں کے سقوط کے بعد ملک کے امرا، نواب، جاگیر دار حضرات اپنی علم دوستی کا ثبوت دیتے ہوئے عربی مدارس کی سرپرستی کرنے لگے۔ لیکن انتہائی قلیل مدت میں اس فروغ علم وہنر کے سنہری دور کا بھی سورج غروب ہو گیا۔
موجودہ دور میں مدارس ومکاتب کی مالی سرپرستی مخیرین قوم کے ناتواں کندھوں پر ہے جو ان کی زکات وصدقات کی رقوم سے ہوتی ہے۔ آج علم کی ساری بہاریں انھیں اہل خیر کی تمام تر توجہات کی رہین منت ہیں اور علم کے شبستان کا چراغ انھیں سے روشن ہے۔
اس رستاخیز اور مایوس کن حالات میں انتہائی بے سرو سامانی کے عالم میں عزیز گرامی مولانا اختر القادری زید مجدہ بانی ومہتمم دار العلوم احمدیہ برکاتیہ، سوائچ پار، ضلع سنت کبیر نگر یوپی نے اللہ رب العزت کی ذات پر بھروسہ کرتے ہوئے اس دار العلوم کا منصوبہ بنایا اور ۵؍ نومبر ۲۰۰۶ء میں اس کا سنگِ بنیاد پیر طریقت حضرت سید شاہ صفی احمد صاحب قبلہ دامت برکاتہم القدسیہ، سجادہ نشین خانقاہ عالیہ، قادریہ، چشتیہ، سہروریہ، جھونسی شریف،الہٰ آباد کے دست ہمایوں سے رکھا گیا۔
بحمدہ تعالیٰ یہ دار العلوم بانی ادارہ کی مساعی جمیلہ اور ارباب خیر کی تمام تر توجہات کی وجہ سے انتہائی قلیل عرصہ میں تعلیمی وتعمیری ترقیاتی منصوبوں کی وجہ سے ملک گیر شہرت کا حامل ادارہ بن چکا ہے۔
اس دار العلوم کی عالی شان، دیدہ زیب، پرشکوہ عمارت سب کو دعوت نظارہ دے رہی ہے۔ اس دار العلوم کا ’’مدرسہ تعلیمی بورڈ، لکھنؤ ‘‘سے الحاق بھی ہو چکا ہے اور بورڈ کے ذریعہ کرائے جانے والے ’’امتحانات کا سنٹر‘‘ بھی ہو گیا ہے اور نظم وضبط کے ساتھ امتحانات بھی کرائے جارہے ہیں۔
اس کے علاوہ قومی کونسل براے فروغ اردو زبان دہلی سے یک سالہ عربی ڈپلوما کورس اور یک سالہ اردو ڈپلوما کورس کی منظوری بھی مل چکی ہے اور اس پر کام بھی ہو رہا ہے۔ مستقبل قریب میں کمپیوٹر ڈپلوما کی منظوری بھی مل جائے گی۔ مزید برآں درجات تحتانیہ وفوقانیہ کی تعلیم کا مکمل انتظام ہے۔ حفظ بالحدر اور تجوید وقرأت کی تعلیم بھی ہو رہی ہے۔
علاوہ ازیں اس دار العلوم کے وسیع ترین منصوبے بھی ہیں جسے عملی جامہ پہنانا ابھی باقی ہے۔ مختلف شعبہ جات کا قیام اور ان کے لیے الگ الگ عمارتوں کی تعمیر بھی ہونی ہے جن کے لیے ارباب ثروت ومخیرین قوم وملت کی تمام تر توجہات درکار ہیں۔ انشاء المولیٰ تعالیٰ یہ دار العلوم دینی و عصری تعلیم کا سنگم ہوگا اور اس کے فارغین دینی تعلیم کے ساتھ عصری علوم کے بھی ماہر ہوں گے جو اس دور میں مسلمانان ہند کی اہم ترین ضرورت ہے۔ منصوبہ جات کی تفصیل اس تعارفی کتابچہ میں مذکور ہیں۔
میں قوم کے مخیرین اور علم دوست حضرات سے پر خلوص گزارش کرتا ہوں کہ اس علم کے شہر کو آباد کرنے کے لیے دل کھول کر تعاون فرمائیں۔ خداے ذوالجلال آپ کو اجر عظیم اور مالی ترقی اور خوش حالی عطا فرمائے گا۔
فقیر راقم الحروف دعاگو ہے کہ رب کائنات جل وعلا اس دار العلوم کے لیے پردۂ غیب سے سامان مہیا فرمائے اور اس کے تمام تر منصوبہ جات کو پایۂ تکمیل تک پہنچائے، نیز اس کے جملہ معاونین ومخلصین کو دارین کی سعادتوں سے مالا مال فرمائے۔ آمین وبہ نستعین۔